ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہو رہیں؟ آخر ایسی کیا غلطی کر رہے ہیں۔۔ ضرور جان لیں

1 min


11

ایک حدیث اورایک بات ہمیشہ میرے ذہن میں ایک سوال لاتی ہے
سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کی آخری آیات حدیث کے مطابق جو بھی ان آیات سے دعا کرے گا وہ اللہ کے وعدے کے مطابق ضرور دیا جائے گا
فتاة القرآن نے لکھا
اس میں میرا بندہ جو مجھ سے مانگے گا وہ میں دوں گا
اب یہ سوال مجھے تنگ کرتا ہے کہ کیا ہم سب نماز میں روزانہ اللہ سے صراطِ مستقیم کی دعا نہیں مانگتے؟
یقینا مانگتے ہیں خشوغ سے مانگتے ہیں
صرف ہم نہیں شیعہ ، سنی ، مشرک سب مانگتے ہیں پھر بہی سب الگ الگ راہوں پر کیوں ہیں؟
سب ان کے طریق پر کیوں نہیں جن پر اللہ نے انعام کیا؟
آخر کیا وجہ ہے ؟
ہم سب ہدایت مانگ کر بھی الگ الگ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ؟
اور ہم میں اکثر لوگ رات کو سونے سے پہلے سورہ بقرہ کی آخری آیات کی تلاوت کرتے ہیں روزانہ کفار پر نصرت کی دعا مانگتے ہیں دل سے خشوع کے ساتھ یہ آیات پڑھتے ہیں پھر بھی
فتاة القرآن نے لکھا:
اس جملے میں جس چیز کا بھی سوال ہوگا اللہ تعالی اسے عطا فرمائے گا
یہ وعدہ پورا نھیں ہو رہا
آخر کیوں؟
کیا وجہ ہے کہ ہم ان آیات کی فضیلتوں سے محروم ہیں؟؟؟؟؟

السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ

محترمہ آپکا سوال بالکل بجا ہے اور اس چیز کے سمجھنے کی ضرورت ہے (میں اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سے جلدی جواب نہ دے سکا اور ویسے بھی اس سوال کا جواب ذرا تفصیل طلب اور لائق تحقیق تھا اس لئے کچھ تاخیر ہوئی معذرت خواہ ہوں)

اس سوال کے متعلق ہم مختلف پہلوؤں سے گفتگو کریں گے جو کہ مندرجہ ذیل ہے:

١) کیا واقعی ہم اللہ تعالی سے نماز میں مکمل خشوع و خضوع سے اور دل کی لگن سے ہدایت کی دعا کرتے ہیں ؟؟ آپ نے جواب ” ہاں ” میں دیا میں جواب ” نہیں ” میں دونگا کیونکہ دنیا میں ٢٠ فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں اور ان میں سے ١٥ فیصد مسلمان عربی ہیں (ڈاکٹر ذاکر نائیک کی تقریر ”کیا قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے؟”سے اقتباس)یعنی انکی مادری زبان عربی ہے اور وہ نماز میں جو کچھ اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر مانگتے ہیں اسکو سمجھتے ہیں (وہ بھی اس شرط پر کہ وہ نماز میں حاضر دماغ ہوں تب) اور باقی ٨٥ فیصد سے زیادہ مسلمان عجمی ہیں یعنی عربی انکی مادری زبان نہیں ہے اور وہ عربی نہیں جانتے ، جبکہ انہی عجمی مسلمانوں میں سے مجموعی مسلمانوں کا ٥ فیصد حصہ عربی سے واقف ہے جو عربی جانتے ہیں یعنی مجموعی طور پر تمام مسلمانوں میں سے صرف ٢٠ فیصد عربی زبان کو سمجھتے ہیں یا نماز کا ترجمہ انہیں آتا ہے ، دوسرے لفظوں میں آپ یوں کہہ لیں کہ ہر١٠٠ مسلمانوں میں سے صرف ٥ مسلمان نماز میں جو کچھ وہ پڑھتے ہیں انکے معانی و مفاہیم کو جانتے ہیں ، مسئلہ یہیں نہیں ختم ہوتا بلکہ اب دیکھیں کہ ان ٢٠ فیصد مسلمانوں میں سے نماز کتنے فیصد ادا کرتے ہیں یہ عدد مزید کم ہوگا ، پھر اس میں سے نماز میں حاضر دماغ یا خشوع و خضوع کتنے لوگوں کے پاس ہوگا ؟ یہ عدد مزید کم ہوگا پھر اسکے بعد بھی ہم یہ کہیں کہ ہم اللہ سے خشوع و خضوع سے دعا کرتے ہیں تو یہ طفل تسلی کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔

٢) اللہ تعالی نے دعا کی قبولیت کیلئے کچھ شرائط رکھی ہیں ان شرائط کے بعد ہی دعا کی قبولیت رونما ہوتی ہے جس میں ایک شرط ”حلال کمائی ” کی ہے ہم ذرا مسلمانوں کی معیشت پر غور کریں کہ کیا یہ حلال ہے ؟؟ یقینا جواب دیتے ہوئے ہمارا سر شرم سے جھک جائے گا اور ہم کہیں گے کہ ہماری معیشت اللہ اور اسکے خلاف جنگ ”سود” پر مبنی ہے تو بہنا دعا کیسے قبول ہو؟؟!!!
صحیح مسلم میں رسول اللہ کا فرمان عالیشان موجود ہے کہ : (رجل یطیل السفر اشعث اغبر یمد یدیہ لی السماء یا رب یا رب و مطعمہ حرام و مشربہ حرام و ملبسہ حرام و غذی بالحرام فانی یستجاب لذلک)
ایک شخص بڑالمبا سفر کرنے کی وجہ سے پراگندہ حالت میں ہے اور آسمان کی جانب اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یا ربّ ، یا ربّ کی نداء لگا تا ہے ، حالانکہ اسکا کھانا حرام سے ، پینا حرام سے اور لباس حرام سے حتی کہ جسم کی پرورش بھی حرام سے ہوئی ہے تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو ۔ صحیح مسلم ، کتاب الزکاة ، باب قبول الصدقة من کسب الطیب و تربیتھا ، رقم الحدیث : ٢٣٩٣
اس روایت میں غور طلب امور یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو تصویر اس شخص کی کھینچی ہے اس میں کچھچیزیں ایسی ہیں کہ ان سے دعا کی قبولیت کے امکانات زیادہ ہوجاتے ہیں مثلاً:
٭ سفر کی حالت میں دعا کرنا۔ (ثلاث دعوات مستجابات لا شک فیہن دعوة المظلوم و دعوة المسافر و دعوة الوالد علی ولدہ ) حسن، سنن الترمذی ، کتا ب البر و الصلة، باب دعوة الوالدین ، رقم الحدیث ١٩٠٥
ترجمہ: تین دعائوں کی قبولیت میں شک نہیں ہونا چاہیے : مظلوم کی دعا ، مسافر کی دعا ، اور باپ کی اولاد کیلئے دعا۔
٭ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا۔ ” ان ربکم تبارک وتعالی حیی کریم یستحی من عبدہ اذا رفع یدیہ الیہ ان یردہما صفرا ” . قال الشیخ الالبانی : صحیح (صحیح ، سنن ابو داود،ابواب فضائل قرآن ، باب الدعائ/ سنن ترمذی کتاب الدعوات باب ان اللہ حی کریم / ابن ماجہ کتاب الدعاء ، باب رفع الیدین فی الدعاء)
یقینا تمہارا رب با برکت ، بلند ، سخی ہے اور اسے بہت حیا آتی ہے اپنے بندے سے جب وہ اسکی طرف ہاتھ اٹھائے اور انہیں خالی لوٹا دے۔
یعنی اس شخص کے پاس تین اسباب موجود تھے جن سے دعا کی قبولیت کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں لیکن ساتھ میں دعا کی قبولیت کے موانع بھی موجود ہیں اور وہ ہے حرام کمائی ، تو اس حدیث سے پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نوید ِ قبولیت دی ہے اس میں دعا کی قبولیت کے مانع امور کا نہ ہونا بھی لازمی ہے۔

٣) آج ہی میں اپنے عرب ساتھیوں سے اسی مسئلہ پر گفتگو کر رہا تھا تو اس میں ایک اور نقطہ بھی سامنے آیا وہ یہ ہے کہ دعا کرنے والا مشرک نہ ہو مشرک آدمی کی دعا اللہ قبول نہیں فرماتے اللہ تعالی نے فرمایا: (وَقَدِمْنَا اِلَی مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ہَبَاء مَّنثُوراً)سورہ فرقان: ٢٣
اور ہم ان کے اعمال کی جانب بڑھ کر پراگندہ ذروں کی جانب کردیا۔
نیز دعا کرنے والے کیلئے ضروری یہ بھی ہے کہ وہ کفریہ کام کا مرتکب بھی نہ ہو کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا : (وَمَا دُعَاء الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ[/COLOR] ) (50) سورة غافر)
اور کافروں کی دعائیں محض بے اثر اور بے راہ ہیں۔

٤) نیز آخر میں ،میں یہ بھی بتانا مناسب سمجھو گا کا کہ کسی دعا کی قبولیت نہ ہونے پر مایوسی یا یہ کہنا کہ ”دعا تو بہت کی تھی لیکن قبول ہی نہیں ہوتی” بھی دعا کے قبول نہ ہونے کا ایک بہت بڑا سبب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لا یزال یستجاب للعبد مالم یدع باثم او قطیعة رحم مالم یستعجل ” قیل: یا رسول اللہ ! ما الاستعجال قال: ”یقول قد دعوت و قد دعوت فلم ار یستجیب لی فیستحسر عند ذلک و یدع الدعاء ” صحیح مسلم، کتاب الذکر و الدعاء و التوبة ، باب بیان انہ یستجاب للداعی ما لم یستعجل ، رقم الحدیث: ٧١١٢
ترجمہ : ”آدمی کی ہر دعا کو اللہ تعالی قبول فرماتے ہیں جب تک قطع تعلقی کی دعا نہ کرے یاجلد بازی سے کام نہ لے ”، کہا گیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جلد بازی کیا ہے: فرمایا:”آدمی یہ کہے کہ میں نے دعا تو بہت کی لیکن مجھے نہیں لگتا کہ میری دعا قبول ہوگی ،اسوقت وہ نا امید ہوکر دعا چھوڑ دیتا ہے”
لہذا یہ بات کہنا مناسب نہیں کہ ”یہ وعدہ پورا نہیں ہورہا”

امید ہے کہ میں آپ کو بات سمجھانے میں کامیاب رہا ہونگا
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
و صلی اللہ علی نبینا محمد
و السلا م علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ


Like it? Share with your friends!

11